نئی دہلی،16 اکتوبر وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے خوراک اور زراعت کی عالمی تنظیم ایف اے او کے قیام کے 75 سال مکمل ہونے پر آج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے 75 روپئے کا ایک یادگی سکہ جاری کیا۔ انھوں نے فصلوں کی حیاتیاتی اعتبار سے حال ہی میں بہتر بنائی گئیں 17 قسموں کو قوم کے نام وقف بھی کیا۔
اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے پوری دنیا کے ان لوگوں کو مبارکباد دی جو تغذیے میں کمی کو ختم کرنے کے لیے مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے کسان ساتھی- ہمارے انیہ داتا، ہمارے زرعی سائنسداں، ہمارے آنگن واڑی آشا کارکن، تغذیے میں کمی کے خلاف تحریک کی بنیاد ہیں۔ انھوں نے بھارت کے اناج کے گوداموں کو اپنی محنت سے بھر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ غریب سے غریب تر لوگوں تک پہنچنے میں حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کوششوں کی وجہ سے بھارت کورونا کے بحران کے دوران بھی کم غذائیت کے خلاف مضبوط لڑائی لڑ سکتا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پچھلے برسوں میں ایف اے او نے بھارت سمیت پوری دنیامیں زرعی پیداوار میں اضافہ کرنے اور بھوک کو کم کرنے میں مدد کی ہے۔ اس نے تغذیے میں اضافہ کرنے میں ایک زبردست رول ادا کیا ہے اور اس کی ان خدمات کا 130 کروڑ سے زیادہ بھارتی احترام کرتے ہیں۔ ا نھوں نے کہا کہ عالمی خوراک پروگرام کے لیے اس سال کا نوبیل امن انعام ایف اے او کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت اس شراکت داری اور رابطے سے جو تاریخی نوعیت کے ہیں بہت خوش ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ خوراک کا عالمی پروگرام ایف اے او نے ڈاکٹر بنے رنجن سین کی قیادت میں اس وقت شروع کیا تھا جب وہ ایف اے او کے ڈائرکٹر جنرل تھے۔ انھوں نے قحط سالی اور سوکھے کے درد کو بہت قریب سے محسوس کیا تھا اور انھوں نے جو کام کیا تھا وہ اب بھی پوری دنیا کے لیے مفید ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایف اے او نے پچھلی دہائیوں میں کم غذائیت کے خلاف بھارت کی لڑائی کو قریب سے دیکھا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ چھوٹی عمر میں حاملہ ہوجانے، تعلیم کی کمی، معلومات کی کمی، پینے کے پانی تک نامناسب رسائی، صفائی ستھراکی کمی وغیرہ کی وجہ سے ہم وہ نتائج حاصل نہیں کرسکے جن کی توقع تھی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ برسوں کے تجربے کے نتیجے میں 2014 کے بعد ملک میں نئے سرے سے کوششی کی گئیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک مربوط حکمت عملی کے ساتھ حکومت نے زبردست پالیسی اختیار کی اور ایک ہمہ جہت حکمت عملی پر عمل کرنے کے لیے تمام بندشوں کو ہٹا دیا۔ انھوں نے تغذیے میں کمی کے خلاف حکومت کے اقدامات گنائے مثلاً نیشنل نوٹریشن مشن(پوشن ابھیان) سوچھ بھارت مشن کے تحت اجابت خانوں کی تعمیر، مشن رینبو، جل جیون مشن، کم قیمت کے سینیٹیشن پیڈ کی تقسیم وغیرہ۔ انھوں نے لڑکوں میں مقابلے لڑکیوں کے زیادہ داخلہ لینے جیسی کوششوں کو اجاگر کیا۔ انھوں نے کہا کہ کم غذائیت سے نمٹنے کے لیے اہم کام کیا جارہا ہے مثلاً غذائیت سے بھرپور فصلوں اور موٹے اناج کو فروغ دینا جو پروٹین، لوہے اور زنک وغیرہ سے مالا مال ہیں۔
وزیر اعظم نے 2023 کو ملیٹس کا بین الاقوامی سال قرار دینے کی بھارت کی تجویز کی مکمل حمایت کے لیے ایف اے او کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہ اس سے غذائیت بخش خوراک کے استعمال کی حوصلہ افزائی ہوگی، اس کی فراہمی میں اضافہ ہوگا اور چھوٹے کسانوں کو اس سے بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کسان زیادہ تر اپنی زمین پر موٹے اناج اگاتے ہیں جہاں پر پانی کا مسئلہ ہوتاہے اور زمین زیادہ زرخیز نہیں ہوتی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس سے نہ صرف بھارت کو بلکہ پوری دنیا کو فائدہ پہنچے گا۔
وزیر اعظم نے رائے ظاہر کی کہ بعض فصلوں کی عام قسم میں بعض مائیکو نٹرینٹ کی کمی ہوتی ہے اور ان مشکلات پر قابو پانے کے لیے حیاتیاتی طور پر بہتر بنائی گئی فصلوں کی قسموں کا انتظام کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ آج بہت سی مقامی اور روایتی فصلوں جن میں گیہوں اور دھان بھی شامل ہے بہتر بنائی گئی 17 قسموں کے بیج کسانوں کو دستیاب کرائے گئے ہیں جو غذائیت بخش خوراک فراہم کرنے کی مہم کو مضبوط بنانے کا ایک اہم قدم ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پوری دنیا کے ماہرین کورونا وبائی بیماری کی وجہ سے بھارت میں بھوک مری اور تغذیے کی کمی کے بارے میں تشویش میں مبتلا تھے۔ انھوں نے کہا کہ اس تشویش کے دوران پچھلے سات آٹھ مہینے میں بھارت نے 80 کروڑ غریب لوگوں کو تقریباً 1.5 کروڑ روپئے کی مالیت کا اناج مفت تقسیم کیا ہے تاکہ بھوک مری اور کم غذائیت کے خلاف لڑائی لڑی جاسکے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ راشن میں مسور کے ساتھ ساتھ گیہوں اور چاول کو شامل کرنے پر خصوصی توجہ دی گئی اور یہ خوراک کی مسلسل فراہمی کے تئیں بھارت کی عہد بندی کے ایک حصے کے طور پر کیا گیا۔
وزیر اعظم نے بتایا کہ 2014 تک صرف 11 ریاستوں میں خوراک کی فراہمی سے متعلق قانون نافذ تھااس کے بعد ہی یہ قانون پورے ملک میں لاگو کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اب جب کہ پوری دنیا کورونا کی وجہ سےجدوجہد کر رہی ہے، بھارت کے کسانوں نے اناج کی ریکارڈ پیداوار کی ہے اور حکومت نے بھی اناج مثلاً گیہوں، دھان اور دالوں کی خریداری کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بھارت میں اصلاحات پر مسلسل عمل کیا جارہا ہے جس سے خوراک کی عالمی مسلسل فراہمی کے تئیں بھارت کے عہد کی عکاسی ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اے پی ایم سی قانون میں ترمیمات کا مقصد اسے مزید مسابقت والا بنانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں کہ کسانوں کو ایم ایس پی کی لاگت سے ڈیڑھ گنا قیمت ملے۔ ایم ایس پی اور حکومت کی خریداری ملک میں خوراک کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کے اہم اقدامات ہیں۔ اس لیے ان کے لیے اس سلسلے کو جاری رکھنا عین فطری عمل ہے۔
وزیر اعظم نے کہا چھوٹے کسانوں کو طاقت دینے کے لیے فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشز یعنی ایف پی اوز کے ایک بڑے نیٹ ورک کو ترقی دی گئی۔ اناج کا ضیاع بھارت میں ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ رہاہے اور ضروری اشیا کے قانون میں ترمیموں سے یہ حالت بدل جائے گی۔اس طرح اب حکومت اور پرائیویٹ صنعتکاروں کو گاؤوں میں ایک بہتر بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنے کے اور زیادہ مواقع ملیں گے۔
وزیر اعظم نے اے پی ایم سی قانون میں ترمیم کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب کسان کسی پرائیویٹ کمپنی یا صنعت کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے تو اس کی پیداوار کی قیمت بوائی سے بھی پہلے طے کردی جائے گی۔ اس کی وجہ سے قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے کسان کو راحت ملے گی اوراسے کھیتی باڑی میں نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ وزیر اعظم مزید کہا کہ کسان کو اپنی پسند کا انتخاب کرنے کے زیادہ مواقع دینے کے ساتھ ساتھ کسان کو قانونی تحفظ بھی دیا گیا ہے۔اگر کسی وجہ سے کسان معاہدہ توڑنا چاہتاہے تو اسے کوئی جرمانہ ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن اگر ادارہ معاہدہ توڑتا ہے تو اسے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ یہ معاہدہ صرف فصل کے بارے میں ہوگا اور کسان کی زمین پر کسی قسم کے بحران سے متعلق نہیں ہوگا۔اس کا مطلب ہوا کہ ان اصلاحات کے ذریعے کسان کے لیے ہر طرح کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر یہ کہتے ہوئے مکمل کی کہ جب بھارتی کسان مضبوط ہوجائیں گے تو ان کی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور اس طرح سے تغذیے کی کمی کے خلاف مہم کو بھی استحکام حاصل ہوگا۔ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ بھارت اور ایف اے او کے درمیان ہم آہنگی سے اس مہم کو مزید رفتار ملے۔